fiqr e iqbal keun Zrori He
فکر اقبال کیوں ضروری ہے؟
قومی سطح پر مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت اہل علم ہر دور حقیقت یہ ہے کہ ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں جاری جمود کا بنیادی سبب قانونی اور فقہی میدان میں اجتہاد کے رجحانات کا موجود نہ ہونا ہے۔ اُس نے ہمیں زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے ان راستوں پر ہی چلنے پر مجبور کر رکھا ہے جو آج دور جدید میں مسائل کے حل کی منزل کی طرف نہیں جاتے۔ اس حقیقت کا کماحقہ مشاہدہ اُس وقت ہوا جب استنبول میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک اہل علم کی گفتگو سننے کا موقع ملا۔ کانفرنس کے ایک سیشن کا موضوع یہ تھا کہ افغانستان دارالحرب ہے یا دارالاسلام۔بیان کرتے رہے ہیں۔ برصغیر میں یہ آواز ایک بلند اور موثرآہنگ کے ساتھ اقبال نے بلند کی۔ ہمارا معاشرہ جن مسائل، مشکلات اور الجھنوں کا شکار ہو چکا ہے اس کا ایک بڑا سبب وہ جمود ہے جو ہماری علمی، معاشرتی، سماجی اور قانونی زندگی پر طاری ہے۔
کسی بھی خطے کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سے موقف رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہندوستان کے بارے میں پچھلی صدی میں علماءکا موقف تھا جس کے نتیجے میں تحریک ہجرت بپا کی گئی۔ لیکن اس کانفرنس میں جس انتہا پسندی کے ساتھ یہ موقف دیکھنے میں آیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اردن سے تشریف لائے ہوئے مفتی صاحب نے دارالحرب اور دارلاسلام کے روایتی تصور پہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دارالحرب اور دارلاسلام کے روایتی تصور کا آج کی ریاستوں پراطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اگر ہم آج موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو ساری دنیا ہی دارالاسلام ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ اورکوئی ملک دارالحرب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ظاہر ہے اردن کے مفتی صاحب کا یہ موقف شرکاءکانفرنس کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی جس نے بحث و تمحیص کا نیا دروازہ کھول دیا۔ دریں اثناءمصر سے تشریف لائے ہوئے مفتی صاحب نے اس سے بالکل ہی مختلف اور متضاد موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ان کے موقف پر کئی سوالات بھی اٹھائے کہ اگر ساری دنیا ہی دارلاسلام ہے تو اسرائیل کے بارے میں ہماراموقف کیا ہو گا اور ان ممالک کے بارے میں ہم کیا کہیں گے جو مسلم دنیا کے خلاف مسلسل مصروف جنگ ہیں اور مسلم دنیا پر انہوں نے ظلم اور دہشتگردی کی سیاہ رات مسلط کی ہوئی ہے۔ دریں اثناءسابق مفتی اعظم بوسنیا نے ان دونوں علماءکے موقف کو بالکل ایک نئے تناظر سے پیش کیا اور کہا کہ کون سا موقف درست ہے اور کون سا غلط اس سے قطع نظر، ہمیں اس بات سے ہرگز چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ آج ہمیں اپنے روایتی تصورات کااز سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر واقعی ساری دنیا دارلاسلام ہے تو پھر وہ خطے جہاں مسلمان ابتلاءاور آزمائش کا شکار ہیں اور غیر مسلموں کی طرف سے ظلم، زیادتی اور جنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، وہاں نہ صرف ان کی زندگی، مال، آبرو بلکہ دین اور ایمان بھی خطرے میں ہے، ان کے بارے میں کیاکہیں گے۔ اور اگر ساری دنیا دارلاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے تو سوال یہ ہے کہ مسلمانیورپ جا کر اپنے آپ کو محفوظ کیوں محسوس کرتے ہیں۔ جب بوسنیا سے لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تو بہت سے لوگ یورپ جا کر آباد ہوئے اور بہت سے مسلم دنیا میں گئے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ تمام بوسنیائی مسلمان جو یورپ میں جا کر آباد ہوئے ان کے تمام حقوق تو محفوظ رہے لیکن جو مسلمان مسلم دنیا میں آ کر آباد ہوئے وہ اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہو گئے۔ دارلاسلام اور دارالحرب کا یہ کیا معیار ہے کہ خود مسلمان بھی اپنے حقوق کا تحفظ دارلاسلام میں رہنے کی بجائے دارالحرب میں زیادہ یقینی سمجھنے لگے ہیں۔
یہ تو ایک مبحث ہے جو اس بات کی مثال ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی کے بہت سے مسائل اسی طرح کے خلط مبحث اور الجھنوں سے بھرے پڑے ہیں۔آج ہم فقہی واضحیت اور قانون کی صحیح تعبیر و تشریح کی عدم موجودگی کے باعث ان مسائل کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے معذور ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں اجتہاد پر خطبے میں فرمایا تھا کہ آج ہمارے اجتماعی مقاصد اسلامی ہونے کی بجائے ایرانی، ترکی اور عربی بن کر رہ گئے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری موجودہ معاشرتی صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے مقاصد ایرانی، ترکی اور عربی سطح سے بھی نیچے اتر کے بہت ہی علاقائی، مسلکی ،جماعتی اور مقامی حدود میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ علامہ کے بقول توحید کے آفاقی اصول کی شفاف پیشانی شرک کے دھبوں سے کم و بیش آلودہ ہو گئی ہے۔ اسلام کے اخلاقی مقاصد کا عالمگیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اسلام پر جمے ہوئے اس خول کو کھرچ ڈالیں جس نے زندگی کے بارے میں ہمارے بنیادی متحرکی نقطہ نظر کو غیر متحرک اور جامد کر دیا ہے۔ اس طرح ہی ہم اسلام کی حریت، مساوات اور یکجہتی کی اصل صداقتوں کو دوبارہ دریافت کر سکیں گے۔ اور اس طرح سے ہی یہ بات ممکن ہو سکے گی کہ اس میں صداقتوں کی اصل سادگی اور عالمگیریت کی بنیاد پر ہم اپنے اخلاقی، سماجی اور سیاسی نصب العین کی دوبارہ تعمیر کر سکیں۔
مسلم دنیا میں اکثرمعاملات میں جمود کی حامل سوچ کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مثلاً جب پچھلے ماہ سعودی عرب میں شاہ عبد اﷲ نے مشاورتی کونسل کے تحریری قانون کے دو آرٹیکلز میں ترمیم کر کے شوریٰ کونسل میں خواتین کےلئے بیس فیصد کوٹہ مختص کیا اور تیس خواتین کو منتخب کر کے مشاورتی کونسل کا حصہ بنایا تو اسے بھی سعودی معاشرے کے کئی علماءنے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثلاً العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق امور اوقاف سے متعلق اسلامی وزارت برائے دعوت کے رکن احمد العابد القدر نے شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو شوریٰ کونسل کا رکن بنانے کا مطلب طوائفوں کو اقتدار میں شریک کر نے کا قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح کنگ سعود یونیورسٹی کے سابق ٹیچنگ اسسٹنٹ ڈاکٹر صالح الصغیر نے خواتین کی شوریٰ کونسل میں شمولیت کی شدید مذمت کی اورکہا کہ خواتین کو شوریٰ کونسل میں شامل کرنے کا مطلب شوریٰ کونسل میں معاشرے کی نجاست کو شامل کر دینا ہے۔ ایک اور سعودی عالم شیخ نصیر العمر نے بھی شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت معاشرے میں مغربی اقدار کے غلبے کی علامت ہے۔ یہ تو ایک بگاڑ ہے اور بگاڑ سے کسی بھی چیز کی شروعات کی جائے تو اس کا نتیجہ بھی بگاڑ کی صورت میں ہی نکلے گا۔ حالانکہ اسلامی تاریخ اور قانون سے شناسائی رکھنے والا ایک عام فرد بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ خواتین کا شورائی کردار دورِ نبوت اور دورِ خلافتِ راشدہ میں موجود تھاجب خواتین کو نہ صرف اجتماعی معاملات میں شامل مشاورت کیا گیا بلکہ کئی عدالتی اور انتظامی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد کی گئیں جس سے وہ معاشرے میں انتظامی اور عدالتی لحاظ سے بھی اپنا کردار کر رہی تھیں ۔
سوال یہ ہے کہ ان بحرانوں سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں، ہمیں آج اقبال کی سوچ کی طرف متوجہ ہو کر اسلامی قانون کی اصل روح کو سمجھنا ہے اور اس روح کو سماجی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر رو بہ عمل کرنے کے لیے اجتہاد کے راستے کو اختیار کرنا ہے۔ بقول اقبال مسلمانوں کے پاس وحی کی بنیاد پر قطعی تصورات کی مضبوط اورثقہ اساس موجود ہے۔ وہ اصول اور وہ تصورات جن کا تعلق زندگی کی گہرائیوں کے ساتھ ہے جو بظاہر خارجیت کو داخلیت میں بدل سکتے ہیں اس کے لیے زندگی کی روحانی اساس ایمان کا معاملہ ہے جس کی خاطر ایک کم علم انسان بھی اپنی جان قربان کر سکتا ہے۔ اسلام کے بنیادی نظریے کی رُو سے قرآن حکیم کے بعد وحی کی حجیت باقی نہیں رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم روحانی اعتبار سے حامل قرآن ہوتے ہوئے دنیا کی سب سے آزاد اور نجات یافتہ قوم ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کا یہ منصب من حیث القوم دنیا میں رو بہ عمل نہیںہو سکا۔ دور جدید میں مسلم معاشرہ چاہے سیاسی اور ملکی سطح پہ استعمار اور سامراج سے آزادی حاصل کر بھی چکا ہو تاحال ذہنی اور روحانی غلامی میںمبتلا ہے۔ اس غلامی کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم وحی کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کے دیئے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی از سر نو تشکیل کریں اور اسلام کے حقیقی مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ اقبال کے نزدیک وہ مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں جماعتی، انفرادی، شخصی، مسلکی اور محدود مذہبی مفادات کے گنبد بے در سے نکلنا ہو گا۔ اسلام کے آفاقی پیغام کو جو ملت اسلامیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بقاءکے لیے ناگزیر ہے اسے پورا کرنے کے لیے اجتہاد کے راستے کو اختیار کرتے ہوئے ہمیں قانون اسلام کی وہ تعبیر پیش کرنی ہے اور قانون اسلام کی حقیقی روح کو دنیا کے سامنے منکشف کرنا ہے جس سے استدلال کی قوت سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ انسانیت کے لیے فلاح کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ راستہ ہے اسلام۔
امامیه دانیال مهدی
No comments:
Post a Comment